برلن،25 جون (ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)جرمن خبر رساں ادارے ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار اِنگو مانٹوئفل کے مطابق برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی پر ماسکو کا سرکاری رد عمل سفارتی انداز کا ہو گا لیکن دراصل روس بریگزٹ پر بہت خوش ہے اور یہ کہ روس کے خطرناک کھیل کو پہلی کامیابی ملی ہے۔برطانوی فیصلے پر صرف نائیجل فراج اور یورپی یونین کے مخالف دیگر سیاستدان مثلاً ہالینڈ کے گیئرٹ وِلڈرز یا فرانس کی مارین لی پین ہی کو خوشی نہیں ہوئی بلکہ برطانوی ریفرنڈم سے فائدے میں رہنے والوں میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن بھی شامل ہیں۔اگرچہ یہ امکان کم ہی ہے کہ پوٹن اس موقف کا واضح طور پر اظہار بھی کریں گے، وہ خود کو زیادہ تر ایک ایسے بین الاقوامی رہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں، جو اپنے ردعمل کے لیے سفارتی لب و لہجہ ہی اپنائے گا تاہم جو ٹی وی چینل ماسکو حکومت کی نگرانی میں ہیں، وہاں بریگزٹ پر خوشی کے ساتھ ساتھ مگر مچھ کے آنسوؤں کا غلبہ رہے گا کیونکہ روسی میڈیا ایک عرصے سے ایک ایسی یورپی یونین کی منفی تصویر کشی میں مصروف ہے، جو اُس کے خیال میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔بہت سے روسیوں کو برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی پر سوویت یونین کا ٹوٹنا یاد آ رہا ہے۔ بلاشبہ بریگزٹ ایک تاریخی دھچکا ہے لیکن جیسے سوویت یونین کی تحلیل کے بعد ریاستی اور اقتصادی نظام مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ گیا تھا، ویسا یورپ میں نہیں ہو گا۔ روسی میڈیا البتہ اپنے ناظرین کو یہی باور کروانے کی کوشش کر رہا ہے، جس کا مقصد روسی عوام کی توجہ داخلی مسائل سے ہٹانا ہے۔یورپ میں عوامیت پسند سیاستدانوں کی بڑھتی مقبولیت کے پیچھے روسی پالیسیاں یقیناً کارفرما نہیں، یہ مقبولیت بہت سے پیچیدہ سماجی، سیاسی اور اقتصادی عوامل کا نتیجہ ہے تاہم ماسکو حکومت بلاشبہ گزشتہ چند برسوں سے عوامیت پسندانہ یورپی حلقوں اور یونین مخالف عناصر کی تائید و حمایت کر رہی ہے، خواہ یہ حمایت مارین لی پَین کے نیشنل فرنٹ کے لیے ایک روسی و چیک بینک کی جانب سے قرضے یا پھر روسی میڈیا پر نائیجل فراج کی پارٹی کے بارے میں خیر خواہانہ رپورٹنگ کی صورت میں ہو۔اس پالیسی کے ذریعے روس یورپی یونین کے ساتھ اپنی مذاکراتی پوزیشن بہتر بنانے اور اپنے خلاف عائد پابندیاں نرم کروانا چاہتا ہے۔بریگزٹ سے ایک بڑا مقصد روس نے یہ حاصل کیا ہے کہ اب یورپی یونین آئندہ برسوں کے دوران اپنے اندرونی معاملات سنبھالنے ہی میں مصروف رہے گی اور اپنے ارکان میں اضافے کے بارے میں سرِدست سوچے گی بھی نہیں۔ گویا یوکرائن، مولداویا یا جارجیا کی یورپی یونین میں شمولیت کی منزل اب بہت دور چلی گئی ہے۔ اب یہ ممالک نہ چاہتے ہوئے بھی روس کے دائرہء اثر میں رہنے پر مجبور ہوں گے اور یوں بریگزِٹ سے اصل فائدہ روسی صدر پوٹن کو ہی ہو گا۔